Friday, 14 November 2025

مری آنکھوں میں جو منظر ہے وہ منظر بدل جاتا

 مری آنکھوں میں جو منظر ہے وہ منظر بدل جاتا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں یکسر بدل جاتا

جو شعلہ ہے مِری مُٹھی میں بن جاتا گِل تر وہ

ہے میرے یار کے ہاتھوں میں جو پتھر بدل جاتا

مِرے ذوقِ جبیں سائی کی وحشت دیکھ کر اب تک

نہ بدلا وہ ستمگر کاش سنگ در بدل جاتا

اٹھے ہیں بن کے وہ دشمن جنہیں پالا جنہیں پوسا

نہ یہ ممکن ہوا پھر بھی مِرا تیور بدل جاتا

خدا محفوظ رکھے اس کے سونے کی اداؤوں کو

نہ چاہوں میں کبھی اے کاش یہ بستر بدل جاتا

کبھی آنکھیں کبھی باتیں ٹہوکے اور کبھی نازش

کبھی یادیں بدل جاتیں کبھی دل بر بدل جاتا

ضیا مذہب سے بیزاری میں وہ اکثر یہ کہتے ہیں

بدل جاتی شریعت اور پیغمبر بدل جاتا


ضیاء الرحمٰن ضیاء اعظمی

No comments:

Post a Comment