کب تک یہ جور دور زماں دیکھتے رہیں
ہم یوں چمن کو حرف خزاں دیکھتے رہیں
کیوں اپنے بازوؤں کو نہ جنبش میں لائیں ہم
کیوں ظلمتوں کے بند گراں دیکھتے رہیں
ہم لوگ حوصلوں کے خداوند ہو کے بھی
کیوں راستوں کے سنگ گراں دیکھتے رہیں
پہلو میں اپنے دل ہے تو ممکن نہیں کہ ہم
انساں کو صید آہ و فغاں دیکھتے رہیں
ہم سے کبھی یہ ہو نہیں سکتا کہ اس طرح
لب سی کے انقلاب جہاں دیکھتے رہیں
اشرف ہمیں تو راز جہاں کی لگی ہے دھن
جو دیکھتے ہیں رنگ جہاں دیکھتے رہیں
اشرف قدسی
No comments:
Post a Comment