Saturday, 29 November 2025

جنگل ہم اور کالے بادل

 جنگل ہم اور کالے بادل


آیا اک ہوا کا جھونکا

یادیں بہت سی لے آیا

رات کے سناٹے کی خوشبو

اجلی صبح کی چہکاریں

سبز ملائم پتوں والے بھیگے تنوں کا تازہ لمس

اونچے گھنے جنگل کے اندر

سانپ سے بل کھاتے رستوں پر

ہونٹوں پہ آنکھوں میں سجائے

جھجک خلش کی تتلی کو

میرا اس کا تنہا سایہ

وہ لمحہ بھی یاد آیا جب

ہم جیسے بھولے بھٹکے

کالے مست سیہ بادل

دھرتی سے ملنے کی خاطر

برس پڑے تھے پیڑوں پر

پھر کیسی ساعت تھی آئی

خوف نہ تھا گم ہونے کا

تنہا تنہا چلنے کا

جنگل میں کھو جانے کا


ابوبکر عباد

No comments:

Post a Comment