Monday, 10 November 2025

خول سا اوڑھے ہوئے لگتے ہیں لوگ

 خول سا اوڑھے ہوئے لگتے ہیں لوگ

بات کیا ہے اتنے چپ کیسے ہیں لوگ

بند کمروں سے ابھی نکلے ہیں لوگ

اور ہی انداز سے ملتے ہیں لوگ

جس کو دیکھو ہے وہی جھلسا ہوا

کس دہکتی آگ سے نکلے ہیں لوگ

کون کسی کی فکر کرتا ہے یہاں

اپنے اپنے جال میں الجھے ہیں لوگ

روشنی کی کیوں نہیں کرتے تلاش

کیوں اندھیرا بانٹتے پھرتے ہیں لوگ

منزلوں کا ذکر ہی بے سود ہے

گمرہی سے مطمئن لگتے ہیں لوگ

زہر پیتے ہیں مگر مرتے نہیں

کچھ نہ پوچھو کیسے کیا کرتے ہیں لوگ


بلبیر راٹھی

No comments:

Post a Comment