وصل کا عہد استوار نہیں
ان کے وعدوں کا اعتبار نہیں
ہم تصور میں واں پہنچتے ہیں
قدسیوں کا جہاں گزار نہیں
کس صفائی کے ہیں جنوں کے ہاتھ
جیب و داماں میں ایک تار نہیں
دل کے خلوت کدے میں آئیں آپ
اس مکاں میں کسی کو بار نہیں
ہوتے جاتے ہیں ہجر کے خوگر
اب وہ پہلا سا اضطرار نہیں
دلِ افسردہ نے مجھے مارا
کوئی موسم یہاں بہار نہیں
عشق میں سب ہیں جان سے بیزار
کچھ مجھی پر ہی انحصار نہیں
میں تمہاری گلی میں کیوں جاؤں
کیا کروں دل پہ اختیار نہیں
مئے الفت وہ مے ہے جس میں مہر
کیف ہی کیف ہے خمار نہیں
مہر دہلوی
منشی سورج نرائن
No comments:
Post a Comment