Sunday, 9 November 2025

ان کے وعدوں کا اعتبار نہیں

 وصل کا عہد استوار نہیں

ان کے وعدوں کا اعتبار نہیں

ہم تصور میں واں پہنچتے ہیں

قدسیوں کا جہاں گزار نہیں

کس صفائی کے ہیں جنوں کے ہاتھ

جیب و داماں میں ایک تار نہیں

دل کے خلوت کدے میں آئیں آپ

اس مکاں میں کسی کو بار نہیں

ہوتے جاتے ہیں ہجر کے خوگر

اب وہ پہلا سا اضطرار نہیں

دلِ افسردہ نے مجھے مارا

کوئی موسم یہاں بہار نہیں

عشق میں سب ہیں جان سے بیزار

کچھ مجھی پر ہی انحصار نہیں

میں تمہاری گلی میں کیوں جاؤں

کیا کروں دل پہ اختیار نہیں

مئے الفت وہ مے ہے جس میں مہر

کیف ہی کیف ہے خمار نہیں


مہر دہلوی

منشی سورج نرائن 

No comments:

Post a Comment