Wednesday, 12 November 2025

دن کا سکون رات کی اوقات لے گئی

 دن کا سکون رات کی اوقات لے گئی

وہ گھر سے کیا گئی کہ خوشی ساتھ لے گئی

کچھ ابر کا مزاج ہی برہم تھا کھیت سے

رت اپنے ساتھ گاؤں کی برسات لے گئی

چڑیوں کو بھی درخت پہ رکنا نہیں پسند

پیپل کی دھوپ چھاؤں کی بارات لے گئی

کمرے میں میری میز پہ رکھے تھے کچھ خطوط

ان کو ہوائے شام تھی بد ذات لے گئی

دل کی اذاں پہ رات ہوا واقعہ شکیل

میری نماز سب کی مناجات لے گئی


شکیل معین

No comments:

Post a Comment