دن کا سکون رات کی اوقات لے گئی
وہ گھر سے کیا گئی کہ خوشی ساتھ لے گئی
کچھ ابر کا مزاج ہی برہم تھا کھیت سے
رت اپنے ساتھ گاؤں کی برسات لے گئی
چڑیوں کو بھی درخت پہ رکنا نہیں پسند
پیپل کی دھوپ چھاؤں کی بارات لے گئی
کمرے میں میری میز پہ رکھے تھے کچھ خطوط
ان کو ہوائے شام تھی بد ذات لے گئی
دل کی اذاں پہ رات ہوا واقعہ شکیل
میری نماز سب کی مناجات لے گئی
شکیل معین
No comments:
Post a Comment