گھاٹ کب لوٹی ہماری ناؤ بھی
ڈھل چکا جب ساحلوں کا چاؤ بھی
ندیو! تم بھی ذرا دم سادھ لو
بھر چکے کچے گھڑوں کے گھاؤ بھی
آرزو غرقاب ہوتی دیکھ کر
بہہ گئے آدھے ادھورے چاؤ بھی
میں تو مٹی کا کھلونا ہی سہی
تم مِری خاطر کبھی چلاؤ بھی
بھوگ ہی لیتے کیے کی ہم سزا
کاش، چل جاتا ہمارا داؤ بھی
بزم سے جانا ہی تھا ورنہ ہمیں
کیا برا تھا آپ کا برتاؤ بھی
تم کہیں سر تھام کر بیٹھے رہو
شہر میں تو ہو چکا پتھراؤ بھی
تن بدل کر ہم سے طلعت نے کہا
کیوں کھڑے ہو اب یہاں سے جاؤ بھی
طلعت عرفانی
تلک راج
No comments:
Post a Comment