دعا ہے اور دعا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
ہمارے پاس خدا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
میں اپنے چاہنے والوں کو کیسے بتلاؤں
کہ میرے دل میں خلا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
وہ کھولنا تھے جنہیں رازِ زندگی، اُن سے
کُھلا تو بندِ قبا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
سخن میں آیا جو اپنی فضا بنانے کو
بنایا اُس نے فضا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
ہمارے پاس ہے اک آخری گنہ کا سوال
اور اس کے پاس حیا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
ہمیں یقیں ہے خدا ہے ہمارے ساتھ مگر
ستم یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
بھلا وہ کس لیے ناراض ہو گیا ہم سے
کیا تو ہم نے خطا کے علاوہ کچھ بھی نہیں
نادر برار شاہ
No comments:
Post a Comment