Thursday, 13 November 2025

جس کا جی چاہے وہ لیتا ہے نشانہ دل کا

 جس کا جی چاہے وہ لیتا ہے نشانہ دل کا

ہم کہیں دور بنائیں گے ٹھکانہ دل کا

بیٹھے بیٹھے یونہی ہونٹوں پہ ہنسی آئی تو

آ گیا یاد کسی شوخ پہ آنا دل کا

کیا قیامت ہے کہ دو بول محبت کے عوض

لے گیا چھین کے وہ ہم سے خزانہ دل کا

آ بتائیں تجھے ہم ، رقص کسے کہتے ہیں

تو نے دیکھا ہی نہیں وجد میں آنا دل کا

ایک بے نام ملاقات میں یارو ان سے

ان نگاہوں نے کہا سارا فسانہ دل کا

بھول جانے کو ہے تیار ہر اک بات مگر

کوئی بھولے گا بھلا کیسے چرانا دل کا

دکھ کی وہ شام سدا یاد رہے گی ہم کو

دھڑکنوں میں وہ ہر اک درد چھپانا دل کا


فرزانہ ساجد

No comments:

Post a Comment