تمہاری یاد سے نکلی اداسی
مجھے تسلیم ہے ایسی اداسی
ملن وہ آخری بھولا نہ اپنا
نہ اس کے بعد کی پہلی اداسی
سمندر سے بھی گہرا دل ہمارا
ہمارے دل سے بھی گہری اداسی
بہت سے پیرہن بدلے ہیں دل نے
مگر آخر کو پھر پہنی اداسی
کسی نے اپنے اندر جذب کر لی
کسی نے چہرے تک رکھی اداسی
کسی کے لب پہ ہے مسکان جھوٹی
کسی کی شکل پر فرضی اداسی
کوئی حرف سخن تک لے گیا ہے
کسی نے ساز پر گائی اداسی
کسی تخلیق میں ڈھل جائے جب تو
ہر اک پہلو سے ہے اچھی اداسی
ابھی شور طرب تھم جائے گا جب
ہمارے قلب سے گونجی اداسی
ذرا سی دیر خوشیوں کی فضائیں
پھر اس کے بعد اک لمبی اداسی
خود اپنے آپ تک سمٹے ہوؤں کی
بڑی ہی دور تک پھیلی اداسی
اداس اس بار میں یہ سوچ کر ہوں
تِرے ہوتے ہوئے کیسی اداسی
اداسی نے بھی آخر تنگ آ کر
یہ مجھ سے کہہ دیا؛ اتنی اداسی
امر! حد نظر تک دیکھتا ہوں
میں تجھ میں بس اداسی ہی اداسی
امردیپ سنگھ
No comments:
Post a Comment