Tuesday, 11 November 2025

تمہاری یاد سے نکلی اداسی

 تمہاری یاد سے نکلی اداسی

مجھے تسلیم ہے ایسی اداسی

ملن وہ آخری بھولا نہ اپنا

نہ اس کے بعد کی پہلی اداسی

سمندر سے بھی گہرا دل ہمارا

ہمارے دل سے بھی گہری اداسی

بہت سے پیرہن بدلے ہیں دل نے

مگر آخر کو پھر پہنی اداسی

کسی نے اپنے اندر جذب کر لی

کسی نے چہرے تک رکھی اداسی

کسی کے لب پہ ہے مسکان جھوٹی

کسی کی شکل پر فرضی اداسی

کوئی حرف سخن تک لے گیا ہے

کسی نے ساز پر گائی اداسی

کسی تخلیق میں ڈھل جائے جب تو

ہر اک پہلو سے ہے اچھی اداسی

ابھی شور طرب تھم جائے گا جب

ہمارے قلب سے گونجی اداسی

ذرا سی دیر خوشیوں کی فضائیں

پھر اس کے بعد اک لمبی اداسی

خود اپنے آپ تک سمٹے ہوؤں کی

بڑی ہی دور تک پھیلی اداسی

اداس اس بار میں یہ سوچ کر ہوں

تِرے ہوتے ہوئے کیسی اداسی

اداسی نے بھی آخر تنگ آ کر

یہ مجھ سے کہہ دیا؛ اتنی اداسی

امر! حد نظر تک دیکھتا ہوں

میں تجھ میں بس اداسی ہی اداسی


امردیپ سنگھ

No comments:

Post a Comment