مجھے تو سر چھپانے کے لیے گھر کی ضرورت ہے
امیرِ شہر کو لیکن مِرے سر کی ضرورت ہے
کسی کی آبرو پامال ہو جائے تو کہتے ہیں
اسے اب چار دیواری کی چادر کی ضرورت ہے
دیارِ دل میں آ بسنے کا اب تم فیصلہ کر لو
مکیں درکار ہے دل کو، تمہیں گھر کی ضرورت ہے
عجب بے چارگی کے موسموں میں زندگی گزری
نہ رہزن سے شکایت ہے نہ رہبر کی ضرورت ہے
یہ دامن چاک ہو کر پھر کہیں پرچم نہ بن جائیں
کہ دامن چاک لوگوں کو، رفوگر کی ضرورت ہے
سنا ہے دستکوں پر اب وہ دروازے نہیں کھلتے
اب ان شیشوں کے دروازوں کو، پتھر کی ضرورت ہے
تکلّف بر طرف اب دو گھڑی آرام کرنے دو
گھنیری زلف کا سایہ، مسافر کی ضرورت ہے
زمانہ مثلِ کوفہ ہو گیا ہے اب زمانے کو
حسینؑ ابنِ علیؑ جیسے دلاور کی ضرورت ہے
مشقت عمر بھر کر کے وہ خالی ہاتھ ہے اب بھی
کہ اس کی اک جواں بیٹی ہے، زیور کی ضرورت ہے
وہ خود سر ہے قمر اور خود سروں سے پیار کرنے میں
تحمّل کی ضرورت ہے، تدبّر کی ضرورت ہے
ادریس قمر
No comments:
Post a Comment