جہاں تیرے غم نے قدم رکھ دیا
سرِ طاق دنیا کا غم رکھ دیا
دِکھا کر ہمیں دو جہانوں کے خواب
دلوں میں غمِ بیش و کم رکھ دیا
سحر دم فلک نے مِرے سامنے
برستے ہیں اطراف سے ہم پہ تیر
یہ کس راستے میں قدم رکھ دیا
ذرا دیکھ تو اے قسیمِ ازل
یہ کس ہاتھ پر جامِ جَم رکھ دیا
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment