نیند کب اچھی لگی، کب جاگنا اچھا لگا
میری آنکھوں کو وہی اک آئینہ اچھا لگا
جب بھی بازاروں سے گزروں تو مجھے پہچان کر
آئینوں کا میری جانب دیکھنا اچھا لگا
جانتے ہیں، رنگ اپنا ہے، نہ پر اپنے مگر
شہر کب آئے، کہاں ٹھہرے ہو، یہ کیا حال ہے
اس کا مجھ کو روک کر یہ پوچھنا اچھا لگا
خشک پتّے ہیں، ہوا ان کو اڑا لے جائے گی
دشمنوں کو دیکھ کر یہ سوچنا اچھا لگا
اسکی آنکھوں میں کچھ ایسی بات تھی جسکے سبب
شام ہوتے ہی مجھے گھر لوٹنا اچھا لگا
دھوپ ایسی تھی کہ دروازے پر آ کر رک گئی
میرے گھر کو بارشوں کا آسرا اچھا لگا
رات کاٹو، اجنبی شہروں میں تو محسوس ہو
کیسے ہم کو جنگلوں میں جاگنا اچھا لگا
ورنہ منظر ہی کوئی ہوتا نہ پسِ منظر متینؔ
اِس زمیں سے آسماں کا فاصلہ اچھا لگا
غیاث متین
No comments:
Post a Comment