Monday 28 March 2016

زنداں میں بھی وہی لب و رخسار دیکھتے

زِنداں میں بھی وہی لب و رخسار دیکھتے
دروازہ دیکھتے،۔ کبھی دیوار دیکھتے
کس درجہ آنے والے زمانے کا خوف تھا
بجتا گجر تو شام کے آثار دیکھتے
سب دوڑتے تھے اس کی عیادت کے واسطے
جس کو ذرا سا نیند سے بے دار دیکھتے
اب کیا کہیں، وہ اجنبی کیسا تھا، ہم جسے
آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے بھی ناچار دیکھتے
تیرے سوا بھی کچھ نظر آنا محال تھا
دنیا کو دیکھتے،۔۔ کہ تِرا پیار دیکھتے

رام ریاض

ریاض احمد

No comments:

Post a Comment