جنازہ عدل کا نکلا ہے اک بیمار کے ہاتھوں
عدالت بِک گئی اک بار پھر زردار کے ہاتھوں
ابھی پھر وار اس نے کر دیا دن کے اجالے میں
ابھی اک زخم کھایا تھا اسی تلوار کے ہاتھوں
بھروسا تھا سہارے کا ہمیں دیوار پہ لیکن
نہ جانے نام کیا رکھیں دلاسہ دینے والے کا
غموں پہ غم ملے صاحب ہمیں غمخوار کے ہاتھوں
کسی صورت خبر چھپنے سے رکوائیں عدالت کی
حکومت خوف میں ہے شہر کے اخبار کے ہاتھوں
بنی ہے شہر کی خلقت نشانہ تیرِ ظالم کا
سیاست طوقِ ذلت بن گئی اس وار کے ہاتھوں
کوئی اپنا مخالف مملکت میں رہ نہیں سکتا
ہوئے ہیں شہر ویراں اِک اسی آزار کے ہاتھوں
ہدف اک بار پھر اس کا بنوں گا ہے خبر مجھ کو
میں پہلے بھی بہت مطعون تھا اظہار کے ہاتھوں
یہی کردار تو انسان کو انساں بناتا ہے
بشر ہوتا بھی ہے رسوا اسی کردار کے ہاتھوں
سنبھالو سر پہ جو دستار ہے کارِ فضلیت کی
کٹے ہیں سر بہت سن لو اسی دستار کے ہاتھوں
اسی اک خوف نے صفدرؔ مِری آنکھیں جلا ڈالیں
مرَض پھر جائے گا یہ فوج کے سالار کے ہاتھوں
صفدر ہمدانی
No comments:
Post a Comment