کوئی نقشِ قدمِ یار ابھرنے نہ دیا
یہ سہارا بھی ہمیں راہگزر نے نہ دیا
عظمتِ فن کی روایات کو مرنے نہ دیا
شعر سے بچ کے کوئی ظلم گزرنے نہ دیا
مئے معمول سے‘‘ ساقی نے گزرنے نہ دیا’’
آتے جاتے ہوئے لوگوں کو نہ گزرے کوئی شک
اس تصور نے وہاں ہم کو ٹھہرنے نہ دیا
بہ اشاراتِ تغزل بہ نگاہِ تحسیں
اس کے گیسوئے پریشاں کو سنورنے نہ دیا
جیسے چلمن سے لگا جھانک رہا ہو کوئی
یہ تأثر ہمیں کب نورِ سحر نے نہ دیا
صنفِ مجبور نے پاکیزگئ غم کے لیے
شبنمِ چشم کو عارض پہ بکھرنے نہ دیا
مشعلِ دل نے تصور کو سجھائیں راہیں
پردۂ در سے اِدھر کام نظر نے نہ دیا
ناتمامی تو بہرحال مقدر تھی، مگر
کچھ سہارا بھی تو یارانِ سفر نے نہ دیا
آسرا دیتے ہیں لمحاتِ سبک سیر اسے
وقت کو جس نے دبے پاؤں گزرنے نہ دیا
باغبانوں کی شکایت ہو کہ گلچینوں کی
ذوقِ اصلاحِ چمن نے کبھی ڈرنے نہ دیا
پیٹھ پیچھے جو کہا تھا وہ کہا منہ پر بھی
فکرِ فردا نے صداقت سے مکرنے نہ دیا
اپنے انجام پہ افسوس رہے گا مجھ کو
بے گناہی نے اگر جیل میں مرنے نہ دیا
شادؔ لکھتا میں کرائے کے مکانوں پہ غزل
اتنا موقع کبھی گھر گھر کے سفر نے نہ دیا
شاد عارفی
No comments:
Post a Comment