Thursday, 24 March 2016

مری آنکھ کھل گئی یک بیک مری بیخودی کی سحر ہوئی

مِری آنکھ کُھل گئی یک بیک، مِری بے خودی کی سحر ہوئی
کہ مآلِ عشق سے آشنا یہ فریب خوردہ نظر ہوئی
وہ حسِین رُت بھی بدل گئی، وہ فضا بھی زیر و زبر ہوئی
ہوئی موت مجھ سے قریب تر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی
تِرے التفات نے کر دیا تھا مجھے نصیب سے بے خبر
میں تمام کیف و سرور تھا، مِری حد میں غم کا نہ تھا گزر
مِرے دل کو تجھ پہ غرور تھا، مجھےناز تھا تِرے پیار پر
تِرا پیار ہائے تھا مختصر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی
وہ حسِیں سحر، وہ شبِ حسِیں، وہ وفورِ شوق، وہ زندگی
وہ نوازشیں، وہ عنائتیں، وہ کرم، وہ لطف، وہ دلدہی
تِرا روٹھنا، تِرا ماننا، تِری بے رخی، تِری بے خودی
کبھی اب نہ دیکھ سکوں گا عمر بھر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی
ہے کسی کا اور تو کیا گِلہ، میں خود اپنی آنکھ میں خوار ہوں
کبھی مجھ پہ بار ہے زندگی، کبھی زندگی پہ میں بار ہوں
جو اُتر گیا وہ خمار ہوں،۔۔ جو خزاں ہوئی وہ بہار ہوں
تمہیں میری کچھ بھی نہیں خبر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی
وہی آہ جس نے کبھی زمیں کو فلک سے اٹھ کے ہلا دیا
وہی آہ جس نے مِرے نصیب کی تیرگی کو مٹا دیا
وہی آہ جس نے بدل کے خُو تِری لطف تجھ کو سکھا دیا
اُسی آہ میں نہیں اب اثر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی
وہ زمانہ کیف و نشاط کا، وہ خودی میں ایک سرور سا
وہ شکست عقل و شعور کی، وہ جنوں میں جیسے غرور سا
وہ غریبِ عشق بھی چُور سا، وہ غیور حسن بھی چُور سا
وہ سرور مٹ کے رہا مگر مجھے آج اس کی خبر ہوئی
نہ سکوں میں بھی وہ ملے گا اب کہ جو کیف دردِ جگر میں تھا
کبھی چُور عیش و خوشی میں تھا کبھی چُور غم کے اثر میں تھا
تِرا کیفیؔ آج بھی ہے وہی کہ جو پہلے تیری نظر میں تھا
مگر اب نہیں وہ تِری نظر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی

کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment