ساحر کے لیے
یہ اس بیمار کے جاگنے کی آخری شب تھی
وہ اک بیمارِ غم جو زندگی بھر کم سے کم سویا
نہ وہ جی بھر کے خود سویا نہ کوئی اس کا غم سویا
مگر اب کے اب وہ اپنے درد کی قسم کھا کر سویا
کبھی پہلے نہیں تھی بے قراری جو اسے اب تھی
یہ اس بیمار کے جاگنے کی آخری شب تھی
اسے معلوم تھا اس کا لہو ہے سرد ہونے کو
کھِلا تھا اس کا چہرہ آج کی شبِ زرد ہونے کو
دوا تھی منتظر اس کی سراپا درد ہونے کو
نہ وہ خاطر میں لایا حسرتوں کے گرد ہونے کو
بھلا حسرت کوئی اس ناتواں پر مہرباں کب تھی
یہ اس بیمار کے جاگنے کی آخری شب تھی
جو باقی مے تھی اس کی زندگی کے آبگینے میں
وہ مے اس نے ملا دی موت کے ٹھنڈے پسینے میں
پھر اس کے بعد جا بیٹھا وہ اک ٹوٹے سفینے میں
اترنا تھا اسے دریا کے ناہموار سینے میں
وہ دریا چند برسوں سے روانی جس کی بے ڈھب تھی
یہ اس بیمار کے جاگنے کی آخری شب تھی
غزالاں خوب واقف ہیں کہ ماتم ہو رہا ہو گا
دِوانہ مر گیا، ویرانہ اس کو رو رہا ہو گا
وہ خود ہی جانتا تھا جو بھی غم اس کا رہا ہو گا
مگر اب چین سے اپنی لحد میں سو رہا ہو گا
سنا ہے جب وہ سویا مسکراہٹ زینتِ لب تھی
یہ اس بیمار کے جاگنے کی آخری شب تھی
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment