بدن سے روح تلک تشنگی اسی کی ہے
مگر یہ پیاس جگائی ہوئی اسی کی ہے
کچھ اس طرح سے نظر بند کر دیا اس نے
جدھر نگاہ اٹھے،۔ روشنی اسی کی ہے
رکھے ہیں سُوکھے ہوئے پھول بھی سلیقے سے
سِکھایا خاک کو بھی اس نے کیمیا ہونا
میں جی رہا ہوں تو کیا زندگی اسی کی ہے
سنا ہے اس کے نمک خوار ہیں قلم والے
سخن کسی کا، سخن پروری اسی کی ہے
وہی ہے آٹھ پہر مجھ میں جگمگاتا ہُوا
تمام پھیلی ہوئی روشنی اسی کی ہے
نعمان شوق
No comments:
Post a Comment