Saturday, 26 March 2016

ہر موڑ نئی اک الجھن ہے قدموں کا سنبھلنا مشکل ہے

ہر موڑ نئی اک الجھن ہے قدموں کا سنبھلنا مشکل ہے
وہ ساتھ نہ دیں پھر دھوپ تو کیا سائے میں بھی چلنا مشکل ہے
اب ہم پہ کھلا یہ راز چمن، الجھا کے بہاروں میں دامن
کانٹوں سے گزرنا آساں تھا، پھولوں سے نکلنا مشکل ہے
یارانِ سفر ہیں تیز قدم اے کشمکشِ دل کیا ہو گا
رکتا ہوں تو بچھڑا جاتا ہوں، چلتا ہوں تو چلنا مشکل ہے
یہ میرا مذاق تشنہ لبی، لے آیا مجھے کس منزل پر
بہکوں تو ہنسے گا میخانہ، سنبھلوں تو سنبھلنا مشکل ہے
ناکامئ قسمت کیا شئے ہے۔ کیا چیز شکستہ پائی ہے
دو گام پہ منزل ہے، لیکن دو گام بھی چلنا مشکل ہے
یا ہم سے پریشاں خوشبو تھی یا بند ہیں اب خوشبو کی طرح
یا مثلِ صبا آوارہ تھے،۔ یا گھر سے نکلنا مشکل ہے
لکھتے رہے خونِ دل سے جیسے تائید نگاہِ دوست میں ہم
اقبالؔ اب اس افسانے کا عنوان بدلنا مشکل ہے

اقبال صفی پوری



No comments:

Post a Comment