Saturday, 19 March 2016

جمال اسم شفق تاب سے عطا ہے مجھے

جمالِ اسمِ شفق تاب سے عطا ہے مجھے
کہ خاک و خواب کی نِسبت کا بھی پتا ہے مجھے
یہ میں جو آخرِ شب لَو پزیر ہوتا ہوں
دِیے نے اپنی طرح کا بنا لیا ہے مجھے
عبور کرنے سے پہلے یہ جھیل غور سے دیکھ
یہ آبِ زرد تو کچھ اور لگ رہا ہے مجھے
درونِ لحن یہ چنگاریاں بتاتی ہیں
کہ عشق مسندِ  اظہار دے چکا ہے مجھے
جمالِ سورۂ یوسف کا اہتمام کروں
طلسمِ حسنِ زلیخا کا سامنا ہے مجھے
میں بابِ علم کی دہلیز پر کھڑا ہوں علیؔ
کلام کرتے ہوئے سوچنا ہے مجھے

علی زریون

No comments:

Post a Comment