دَم بھر کو چلتے چلتے ہم کیا ٹھہر گئے ہیں
لہرا اٹھے ہیں دریا،۔ صحرا ٹھہر گئے ہیں
تھا جانے کب سے جاری رقصِ نگارِ ہستی
ہم آئے ہیں تو سارے اعضأ ٹھہر گئے ہیں
ماحول کہ سایہ ہمراہ چل رہا ہے
یہ کائنات ساری، تصنیف ہے ہماری
اک مسئلہ محبؔ ہم جس کا ٹھہر گئے ہیں
محب عارفی
No comments:
Post a Comment