پہلو میں تھی بہار ابھی کل کی بات ہے
دل تھام حریمِ یار ابھی کل کی بات ہے
وہ مل گئے تو ہم کو ہوئی قدرِ زندگی
جینا تھا ناگوار ابھی کل کی بات ہے
وہ شدت الم ہے کہ اب آنکھیں نم نہیں
جھپکی جو ذرا آنکھ تو پہلو سے دل گیا
کتنا تھا اعتبار ابھی کل کی بات ہے
بیٹھے ہیں آج دردِ محبت پہ مطمئن
آتا نہ تھا قرار ابھی کل کی بات ہے
اب ایک برہمی کے سزاوار بھی نہیں
حاصل تھا ان کا پیار ابھی کل کی بات ہے
کرتے ہیں آج طنز قبائے بہار پر
دامن تھا تار تار ابھی کل کی بات ہے
وہ آ گئے قریب تو محسوس یہ ہوا
برسوں کا انتظار ابھی کل کی بات ہے
اقبالؔ آج غنچہ و گل پر بھی حق نہیں
اپنی ہی تھیں بہار ابھی کل کی بات ہے
اقبال صفی پوری
No comments:
Post a Comment