بے کار جو بیٹھا ہے تو کچھ کام ہی کر لے
تُو دل پہ کوئی عشق کا الزام ہی دھر لے
آئیں گی ہر اک سمت سے بھنوروں کی صدائیں
اس زلف کی مہکار ذرا اور بکھر لے
ہر روز ملا کرتی نہیں حسن کی دولت
مصروف ہیں اس دور میں جلوے بھی نظر میں
تُو اپنے لیے اس کی گلی میں کوئی گھر لے
تھی جس کے حوالے سے تِری بزم کی خوشبو
وہ شخص ہے تنہا کبھی اس کی بھی خبر لے
اظہار کے اسلوب قتیلؔ اور بہت ہیں
جب رو نہ سکے ہجر میں تب شاعری کر لے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment