Friday, 25 March 2016

بیکار جو بیٹھا ہے تو کچھ کام ہی کر لے

بے کار جو بیٹھا ہے تو کچھ کام ہی کر لے
تُو دل پہ کوئی عشق کا الزام ہی دھر لے
آئیں گی ہر اک سمت سے بھنوروں کی صدائیں
اس زلف کی مہکار ذرا اور بکھر لے
ہر روز ملا کرتی نہیں حسن کی دولت
پلکوں سے اٹھا کر اسے جذبات میں بھر لے
مصروف ہیں اس دور میں جلوے بھی نظر میں
تُو اپنے لیے اس کی گلی میں کوئی گھر لے
تھی جس کے حوالے سے تِری بزم کی خوشبو
وہ شخص ہے تنہا کبھی اس کی بھی خبر لے
اظہار کے اسلوب قتیلؔ اور بہت ہیں
جب رو نہ سکے ہجر میں تب شاعری کر لے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment