اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پہ اپنا
جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا
کوچۂ دہر میں غافل نہ ہو پابندِ نشست
رہگزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا
غمزدہ اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ
دیکھیں کیا لہجۂ ہستی کو کہ جوں آبِ رواں
یہاں ٹھہرنا نظر آتا نہیں دم بھر اپنا
گر مَلوں میں کفِ افسوس تو ہنستا ہے وہ شوخ
ہاتھ میں ہاتھ کسی شخص کے دے کر اپنا
وائے قسمت کہ رہے لوگ بھی اس پاس نہ وہ
ذکر لاتے تھے جو کسی ڈھب سے اکثر اپنا
ذبح کرنا تھا تو کیوں نہ مِری گردن پر
زور سے پھیر دیا آپ نے خنجر اپنا
نیم بسمل ہی چلے چھوڑ کر تم کیوں پیارے
زور یہ تم نے دکھایا ہمیں جوہر اپنا
کیا کریں دل جو کہے میں ہو تو ہم اے جرأتؔ
نہ کہیں جائیں کہ ہے سب سے بھلا گھر اپنا
قلندر بخش جرأت
No comments:
Post a Comment