Monday 28 March 2016

جب کبھی تیری دید ہوتی ہے

جب کبھی تیری دید ہوتی ہے
ہم کو اس روز عید ہوتی ہے
جھک کے ملنا بڑی کرامت ہے
اس سے دنیا مرید ہوتی ہے
اچھے گُن دیکھ، اچھی شکل نہ دیکھ
سنکھیا بھی سفید ہوتی ہے
سچ تو یہ ہے کہ تیری دوری بھی
شرحِ حبل الورید ہوتی ہے
آپ کے ایک مسکرانے پر
ہم کو کیا کیا امید ہوتی ہے
اس کے وعدے پہ جی رہا ہے صفیؔ
ہائے کیا شے امید ہوتی ہے

صفی اورنگ آبادی

No comments:

Post a Comment