مجھ پہ کب آج ہی یہ بخت آیا
میں عدم ہی سے ہو کے مست آیا
بارگاہِ سخن میں بعد از میرؔ
کیسا کیسا ہوس پرست آیا
دلبرا! رقص دیکھنا ہے تجھے؟
کوئی احسان تو نہیں ہے جو تُو
عشق میں تَج کے تاج و تخت آیا
دسترس خود پہ جب ہوئ تو کہا
کیا زبردست زیرِ دست آیا
اک مسافر گلے ملا مجھ سے
یاد مجھ کو بھی اک درخت آیا
قبل اس کے میں طیش میں آتا
سامنے وعدۂ اَلَست آیا
جنگ کس کے خلاف تھی تیری
اور کسے دے کے تُو شکست آیا
وحشیاں! صف درست ہو کے رہو
شاہِ وحشت برائے گشت آیا
تھا میں اپنی ’انا‘ کے روزے سے
پئے افطار، خوانِ ہست آیا
آج ایوانِ شاعرى میں علی
ایک درویش دل بدست آیا
علی زریون
واہ
ReplyDelete