زبانِ کِذب نہیں چل سکے گی یاں، حق ہے
یہ بارگاہِ محبت کہ اے میاں! حق ہے
میں بعد و قرب کی تفریق میں پڑا ہی نہیں
مِرے کریم کا ہر ’دور و درمیاں‘ حق ہے
چھُپے ہوئے ہوں کہ ظاہر، سبھی برابر ہیں
وہ چھ دنوں پہ محیط، اور تُو ساتویں دن پر
چھَٹا زمیں کا، فلک تیرا ساتواں حق ہے
کوئی لڑائی، کوئی بحث، کوئی جھگڑا نئیں
ہمارے بارے میں جس کو ہے جو گماں، حق ہے
کوئی مثال تو لاؤ برائے ردِ جنوں
کہ جس پہ ہم بھی تمہیں کہہ سکیں کہ ہاں حق ہے
اسی میں الجھے ہوئے ہیں یہ مفتیانِ حرم
کہاں کہاں پہ نہیں، اور کہاں کہاں حق ہے
کلامِ یار کی تصدیق مانگنے والو
کلامِ یار بلا شک و بے گماں حق ہے
علیؔ یہ سانس کا چرخہ بتا رہا ہے کہ ہاں
بشکلِ روح، بدن میں رواں دواں حق ہے
علی زریون
No comments:
Post a Comment