شعلۂ شوق کی آغوش میں کیوں کر آؤں
اک تمنا ہوں کہ مِٹ جاؤں اگر بر آؤں
ایک نغمہ ہوں اگر ان کے لبوں پر کھیلوں
ایک حسرت ہوں اگر خود کو میسر آؤں
ہر طرف سے مجھے کیا گھور رہی ہیں آنکھیں
ایک عالم ہوں جسے بس کوئی محسوس کرے
کوئی معنی ہوں کہ الفاظ کے اندر آؤں
نقش بر آب سہی، کچھ بھی سہی، ہوں تو سہی
ریت کی قید میں کیا خود سے بچھڑ کر آؤں
میری پہچان ہو شاید انہی ذروں کی چمک
اپنے گھر میں اسی زینے سے اتر کر آؤں
میری آیات پہ ایمان نہ لانے والو
تاب لاؤ گے اگر جلد سے باہر آؤں
کھل گئی مجھ سے حیا ان کی پر اے عمرِ وفا
دل یہ کہتا ہے کہ اب اور کسی پر آؤں
اپنے دامن میں کہو، آگ سنبھالوں کیسے
ہاتھ اپنے تو محبؔ خیر سے اکثر آؤں
محب عارفی
No comments:
Post a Comment