Monday 28 March 2016

نہ غنچہ ہے نہ سنبل ہے، پڑا ہے باغ ویرانہ

نہ غنچہ ہے، نہ سنبل ہے، پڑا ہے باغ ویرانا
نہ گل ہے اور نہ بلبل ہے نہ ساقی ہے نہ پیمانا
ذرا اے جان! تم ٹھہرو ہمارے پاس بھی دَم بھر
دلِ بے تاب تو ٹھہرے،۔ چلے جانا، چلے جانا
چھکایا ایک پیالے میں، مجھے تُو نے قیامت تک
سلامت تُو رہے ساقی!،۔ رہے قائم یہ مے خانا
محبت میں تِری اے گل! نہ جانے کیا ہوا ہم کو
نہ خوش آتا چمن ہم کو، نہ خوش آتا ہے ویرانا
نکل جائے اگر دَم بھی اسی گل کے تصور میں
پسِ دیوارِ گلشن اے ظفرؔ! اب ہم کو دفنانا

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment