چلی اب گل کے ہاتھوں سے لٹا کر کارواں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا
یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا،۔ گل اپنا،۔ باغباں اپنا
الم سے یان تلک روئیں کہ آخر ہو گئیں رسوا
رقیبان کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوبان کی
مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشق بد گماں اپنا
میرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بے کس کی غربت پر
کہ جس نے آسرے پر گل کے چھوڑا آشیاں اپنا
جو تُو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا
کوئی آزردہ کرتا ہے سجن اپنے کو ہے ظالم
کہ دولت خواہ اپنا مظہرؔ جانِ جاں اپنا
مرزا مظہر جان جاناں
No comments:
Post a Comment