Monday 28 March 2016

یونہی نہیں یہ کائنات جلوت دلنشیں بنی

یونہی نہیں یہ کائنات، جلوتِ دل نشیں بنی
عشق سے ہر فلک بنا، عشق سے ہر زمیں بنی
عشق تمام تر اَنا،۔ عشق میں عاجزی کہاں
عشق وہ ذات ہے کہ جو راحتِ عاشقیں بنی
ہجر میں جھوٹ بول کر، عشق میں رَد ہُوا ہے تُو
نام تو ہو گیا تِرا،۔۔۔ بات تِری نہیں بنی
عشق کی خاک کے بغیر، عشق کے چاک کے بغیر
شکل بنا رہے تھے تم،۔۔ بولو منافقیں! بنی؟
حاضرِ بارگاہِ عشق، دھیان میں صرف یہ رہے
جس کی نہ بن سکی یہاں، اس کی نہ پھر کہیں بنی

علی زریون

No comments:

Post a Comment