ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
دوستوں کو کہاں پکارا تھا
چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارا تھا
روح دیتی ہے اب دکھائی مجھے
میری آنکھوں میں آ کے راکھ ہوا
جانے کس دیس کا ستارا تھا
وہ تو صدیوں سے میری روح میں تھا
عکس پتھر سے جو ابھارا تھا
زندگی اور کچھ نہ تھی توقیرؔ
ظفل کے ہاتھ میں غبارا تھا
توقیر عباس
No comments:
Post a Comment