Wednesday 30 March 2016

ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا

ٹھہرے پانی پہ ہاتھ مارا تھا
دوستوں کو کہاں پکارا تھا
چھوڑ آیا تھا میز پر چائے
یہ جدائی کا استعارا تھا
روح دیتی ہے اب دکھائی مجھے
آئینہ آگ سے گزارا تھا
میری آنکھوں میں آ کے راکھ ہوا
جانے کس دیس کا ستارا تھا
وہ تو صدیوں سے میری روح میں تھا
عکس پتھر سے جو ابھارا تھا
زندگی اور کچھ نہ تھی توقیرؔ
ظفل کے ہاتھ میں غبارا تھا

توقیر عباس

No comments:

Post a Comment