ایسے ملے نصیب سے سارے خدا کہ بس
میں بندگی کے زعم میں چِلا اٹھا کہ بس
اک کھیل نے ہمارا مقدر بدل دیا
وہ تو ہمیں پکار کے ایسا چھپا کہ بس
پہلے تو اک نشے کو کیا سر پہ خود سوار
جنت ملے گی، اس نے کہا، مومنین کو
جلتے ہوئے مکان سے آئی صدا کہ بس
بے ربطگی کی دھند میں لپٹے ہوئے قدم
جسم اور جاں کے بیچ ہے وہ فاصلہ کہ بس
نغمہ سمجھ کے شور سے محظوظ ہوتی بھیڑ
انبوہِ بے کراں میں کوئی چیختا کہ بس
نعمان شوق
No comments:
Post a Comment