Monday, 28 March 2016

ایسے ملے نصیب سے سارے خدا کہ بس

ایسے ملے نصیب سے سارے خدا کہ بس
میں بندگی کے زعم میں چِلا اٹھا کہ بس
اک کھیل نے ہمارا مقدر بدل دیا
وہ تو ہمیں پکار کے ایسا چھپا کہ بس
پہلے تو اک نشے کو کیا سر پہ خود سوار
پھر یوں کسی خیال سے جی ہٹ گیا کہ بس     
جنت ملے گی، اس نے کہا، مومنین کو
جلتے ہوئے مکان سے آئی صدا کہ بس
بے ربطگی کی دھند میں لپٹے ہوئے قدم
جسم اور جاں کے بیچ ہے وہ فاصلہ کہ بس
نغمہ سمجھ کے شور سے محظوظ ہوتی بھیڑ
انبوہِ بے کراں میں کوئی چیختا کہ بس

نعمان شوق

No comments:

Post a Comment