میں نے مانا کام ہے نالہ دلِ ناشاد کا
ہے تغافل شیوہ آخر کس ستم ایجاد کا
ہائے وہ دل جو ہدف تھا ناوکِ بیداد کا
درد سہتا ہے وہی اب غفلتِ صیاد کا
نرگسِ مستانہ میں کیفیتِ جامِ شراب
اس قدر دلکش رہا تیرا اگر اندازِ جور
زخمِ دل منہ چوم لے گا خنجرِ بیداد کا
حسرت افزا ہے بہت میرے دلِ ویراں کا حال
کون ہے فرماں روا اس ملکِ غیر آباد کا
کھینچ کر لے چل مجھے شوقِ اسیری سُوئے دام
کام ایسا کر کہ جس سے جی بڑھے صیاد کا
کس کو شکوہ ہجر کا اور کس کو حسرت وصل کی
لطف پروردہ ہے میرا دل کسی کی یاد کا
یہ ادائے دلبرانہ،۔۔۔۔ یہ اندازِ حیا
کس طرح پھر کام کرتی ہے نظر جلاد کا
وحشتؔ اس بت نے تغافل جب کِیا اپنا شعار
کام خاموشی سے میں بھی لیا فریاد کا
وحشت کلکتوی
No comments:
Post a Comment