Friday, 25 March 2016

بند آنکھو وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا

بند آنکھو! وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا 
اور یوں پھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا 
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا 
جب بھی تم چاہو جدا ہونا، جدا ہو جانا
تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں
باغ میں سوکھے درختوں کا ہرا ہو جانا
اک نشانی ہے کسی شہر کی بربادی کی
ناروا بات کا یک لخت روا ہو جانا
تنگ آ جاؤں محبت سے تو گاہے گاہے
اچھا لگتا ہے مجھے تیرا خفا ہو جانا
سی دیے جائیں مِرے ہونٹ تو اے جانِ غزل 
ایسا کرنا مِری آنکھوں سے ادا ہو جانا
بے نیازی بھی وہی اور تعلق بھی وہی
تمہیں آتا ہے محبت میں خدا ہو جانا
اچھے اچھوں پہ برے دن ہیں لہٰذا فارسؔ
اچھے ہونے سے تو اچھا ہے برا ہو جانا

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment