Wednesday 30 March 2016

دیکھتے خود کو کبھی بھیڑ میں کھو کر تم بھی

دیکھتےخود کو کبھی بھیڑ میں کھو کر تم بھی 
لوگ ہو کر نہیں ہوتے، وہاں ہو کر تم بھی 
میری خواہش تھی کبھی پاس تمہارے رکتا 
اپنے پیروں میں لیے پھرتے ہو چکر تم بھی 
ان درختوں کے تلے پہلے بھی لوگ آئے تھے
نام لکھ جاؤ مِرے دوست! یہاں پر تم بھی 
دِل مِرا صبح کو بازار کا حصہ ہو گا 
ذہن کو لے کے نکل جاؤ گے دفتر تم بھی 
رات رانی سی مہکتی ہوئی یادیں میری 
سوچ لو مجھ کو تو ہو جاؤ معطر تم بھی 
لوگ ہوتے ہی اذاں اپنے سفر پر نکلے
جاگ بھی جاؤ، سمیٹو ذرا بستہ تم بھی 
میں نے رو رو کے کِیا اپنے لہو کو پانی 
آگ میں اپنی ہی جلتے رہے نشتر تم بھی 

جاوید ندیم

No comments:

Post a Comment