دیکھتےخود کو کبھی بھیڑ میں کھو کر تم بھی
لوگ ہو کر نہیں ہوتے، وہاں ہو کر تم بھی
میری خواہش تھی کبھی پاس تمہارے رکتا
اپنے پیروں میں لیے پھرتے ہو چکر تم بھی
ان درختوں کے تلے پہلے بھی لوگ آئے تھے
دِل مِرا صبح کو بازار کا حصہ ہو گا
ذہن کو لے کے نکل جاؤ گے دفتر تم بھی
رات رانی سی مہکتی ہوئی یادیں میری
سوچ لو مجھ کو تو ہو جاؤ معطر تم بھی
لوگ ہوتے ہی اذاں اپنے سفر پر نکلے
جاگ بھی جاؤ، سمیٹو ذرا بستہ تم بھی
میں نے رو رو کے کِیا اپنے لہو کو پانی
آگ میں اپنی ہی جلتے رہے نشتر تم بھی
جاوید ندیم
No comments:
Post a Comment