Friday, 25 March 2016

تتلیوں کا رنگ ہو یا جھومتے بادل کا رنگ

تتلیوں کا رنگ ہو یا جھومتے بادل کا رنگ
ہم نے ہر اک رنگ کو جانا تِرے آنچل کا رنگ
تیری آنکھوں کی چمک ہے ستاروں کی ضیا
رات کا ہے گھپ اندھیرا یا تِرے کاجل کا رنگ
دھڑکنوں کے تال پر وہ حال اپنے دل کا ہے
جیسے گوری کے تھرکتے پاؤں میں پائل کا رنگ
پھینکنا تم سوچ کر لفظوں کا یہ کڑوا گلال
پھیل جاتا ہے کبھی صدیوں پہ بھی اک پل کا رنگ
آہ، یہ رنگین موسم خون کی برسات کا
چھا رہا ہے عقل پر جذبات کی ہلچل کا رنگ
اب تو شبنم کا ہر اک موتی ہے کنکر کی طرح
ہاں اسی گلشن پہ چھایا تھا کبھی مخمل کا رنگ
پھر رہے ہیں لوگ ہاتھوں میں لیے خنجرکھلے
کوچے کوچے میں اب آتا ہے نظر مقتل کا رنگ
چار جانب جس کی رعنائی کے چرچے ہیں قتیلؔ
جانے کب دیکھیں گے ہم اس آنے والی کل کا رنگ

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment