Thursday 31 March 2016

صبر و قرار و ہوش و دل و دیں تو واں رہے

صبر و قرار و ہوش و دل و دِیں تو واں رہے
اے ہم نشیں! یہ کہہ تو بھلا ہم کہاں رہے
صیاد! شورِ نوحہ کچھ آنے لگا ہے کم
یاروں کے دُور ہم سے مگر آشیاں رہے
تُو تو چلی بہار! پر ان کی بھی کچھ خبر
جو سر بجیب غنچہ نہ  شگفتہ ساں رہے
کر لے جو چاہے آج تُو نام و نشاں کی فکر
کل ہے کہ نے یہ نام رہے اور نشاں رہے
قائمۤ کو اپنی بزم سے جانے نہ دے کہ یار
ہے کیا برا جو مفت میں اک شعر خواں رہے

قائم چاند پوری

No comments:

Post a Comment