صبر و قرار و ہوش و دل و دِیں تو واں رہے
اے ہم نشیں! یہ کہہ تو بھلا ہم کہاں رہے
صیاد! شورِ نوحہ کچھ آنے لگا ہے کم
یاروں کے دُور ہم سے مگر آشیاں رہے
تُو تو چلی بہار! پر ان کی بھی کچھ خبر
کر لے جو چاہے آج تُو نام و نشاں کی فکر
کل ہے کہ نے یہ نام رہے اور نشاں رہے
قائمۤ کو اپنی بزم سے جانے نہ دے کہ یار
ہے کیا برا جو مفت میں اک شعر خواں رہے
قائم چاند پوری
No comments:
Post a Comment