Sunday 27 March 2016

انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا

انداز وہ ہی سمجھے مِرے دل کی آہ کا
زخمی جو کوئی ہوا ہو کسی کی نگاہ کا
زاہد کو ہم نے دیکھ لیا جوں نگیں بہ عکس
روشن ہوا ہے نام تو اس رُو سیاہ کا
ہر چند فسق میں تو ہزاروں ہیں لذتیں
لیکن عجب مزہ ہے فقط جی کی چاہ کا
لے کر ازل سے تا بہ ابد ایک آن ہے
گر درمیاں حساب نہ ہو سال و ماہ کا
رحمت قدم نہ رنجہ کرے گر تِری ادھر
یا رب! ہے کون پھر تو ہمارے گناہ کا
دل اس مژہ سے رکھیو نہ تو چشمِ راستی
اے بے خبر! برا ہے یہ فرقہ سپاہ کا
شاہ و گدا سے اپنے تئیں کام کچھ نہیں
نے تاج کی ہوس،۔ نہ ارادہ کُلاہ کا
سو بار دیکھیاں ہیں تِری بے وفائیاں
تِس پر بھی نت غرور ہے دل میں نباہ کا
اے درد چھوڑتا ہی نہیں مجھ کو جذبِ عشق
کچھ کہربا سے چل نہ سکے برگِ کاہ کا ​

خواجہ میر درد

No comments:

Post a Comment