رہا یوں ہی نامکمل، غمِ عشق کا فسانہ
کبھی مجھ کو نیند آئی، کبھی سو گیا زمانہ
یہ ادائیں بہکی بہکی،۔ یہ نگاہ ساحرانہ
کہ جہاں بھی تُو نے چاہا، وہیں رک گیا زمانہ
ذرا اپنے حسنِ خودبیں کو شکست سے بچانا
مجھے اس کا غم نہیں ہے کہ بدل گیا زمانہ
مِری زندگی ہے تم سے کہیں تم بدل نہ جانا
مِری بندگی ہے محکم، مِرا عزم ہے مکمل
میں جہاں پہ سر جھکا دوں وہیں تیرا آستانہ
وہ حسین زلف بکھری تو مہک گئیں فضائیں
وہ نگاہِ ناز اٹھی، تو سنور گیا زمانہ
وہیں جام میں ڈبو دی مِری مستیوں نے توبہ
جو اٹھی نگاہِ ساقی، مجھے مل گیا بہانہ
مِری زندگی تِرا غم،۔ تِرا غم متاعِِ عالم
مِرے ساتھ صرف تُو ہے، تِرے ساتھ ہے زمانہ
ہے جو مجھ میں اور تجھ میں کوئی فرق تو بس اتنا
تِری زندگی حقیقت، مِری زندگی فسانہ
وہ ابھی گئے ہیں اقبالؔ اسی راستے سے ہو کر
مِرے دل کو یہ یقیں ہے کہ گزر گیا زمانہ
اقبال صفی پوری
واہ واہ واہ۔ کمال
ReplyDelete