اگر تجھے ہی نہ محسوس دکھ ہوا میرا
تو پھر خدا سے بھی بنتا نہیں گِلہ میرا
تُو مجھ سے ملنے کسی مصلحت سے آیا تھا
کہ تجھ سے ملتے ہوئے دم بہت گھٹا میرا
مِرے گریز میں کچھ دن بسر تو کر مِری جاں
مِرے وجود کی آب و ہوا زمینی نہیں
تِرے حواس سے باہر ہے ذائقہ میرا
تِرے بدن کی حرارت بھی خوب ہے لیکن
میں کیا کروں کہ الگ ہے معاملہ میرا
بنام مذہب و ملت تفرقہ بازی کیوں؟
میں آدمی ہوں اور آدمؑ ہے سلسلہ میرا
جو کارِ عشق میں خواہش کو مسترد سمجھے
اس ایک دل پہ کھلے گا مکاشفہ میرا
جہاں کے لوگ مِرے لوگ، سارے گھر مِرے گھر
جو سب کا دکھ ہے وہی دکھ ہے مسئلہ میرا
یہ میری راہ پہ آتے ہوئے سنہری نفوس
چمک رہے ہیں تو سچا ہے تجربہ میرا
تُو اہلِ عشق سے ہے اور نہ اہلِ حیرت سے
سو، تجھ سے کیسے چلے گا مکالمہ میرا؟
میں اپنی ذاتی توجہ سے جل رہا ہوں علی
بگاڑ کچھ نہیں پائے گی یہ ہوا میرا
علی زریون
No comments:
Post a Comment