کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں
رات نے بھید سارے بتائے ہمیں
رازِ ہستی تو کیا کھل سکے گا کبھی
مل گئے تھے مگر کچھ کنائے ہمیں
گرد ہیں کاروانِ گزشتہ کی ہم
ساری دلداریاں دیکھ کر سوئے ہیں
اب نہ زنہار کوئی جگائے ہمیں
ناز جن سے ہمارے نہ اٹھ پائے تھے
آج لے جا رہے ہیں اٹھائے ہمیں
دھوپ میں زندگی کی جلے ہیں بہت
لے چلو دوستو! سائے سائے ہمیں
چل دئیے تھے محبؔ چھوڑ کر ناؤ تم
ڈوبتے دم بہت یاد آئے ہمیں
محب عارفی
No comments:
Post a Comment