Wednesday 30 March 2016

کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں

کیسے کیسے ملے دن کو سائے ہمیں
رات نے بھید سارے بتائے ہمیں
رازِ ہستی تو کیا کھل سکے گا کبھی
مل گئے تھے مگر کچھ کنائے ہمیں
گرد ہیں کاروانِ گزشتہ کی ہم
کیا اب آنکھوں پہ کوئی بٹھائے ہمیں
ساری دلداریاں دیکھ کر سوئے ہیں
اب نہ زنہار کوئی جگائے ہمیں
ناز جن سے ہمارے نہ اٹھ پائے تھے
آج لے جا رہے ہیں اٹھائے ہمیں
دھوپ میں زندگی کی جلے ہیں بہت
لے چلو دوستو! سائے سائے ہمیں
چل دئیے تھے محبؔ چھوڑ کر ناؤ تم
ڈوبتے دم بہت یاد آئے ہمیں

محب عارفی

No comments:

Post a Comment