بہار آئی ہے بھر دے بادۂ گلگوں سے پیمانہ
رہے لاکھوں برس ساقی! تِرا آباد مے خانہ
اسی رشکِ پری پر جان دیتا ہوں میں دیوانہ
ادا جس کی ہے بانکی، تِرچھی چتون، چال مستانہ
نِبھے کیونکر مِرے اور اس پری پیکر کے یارانہ
مجھے آنا ملے کیونکر تِری محفل میں جانانہ
مِری صورت فقیرانہ،۔۔ تِرا دربار شاہانہ
غزالِ دشت بولے دیکھ کر مجنوں کی میت کو
یہ وحشی مر گیا،۔۔ اب ہو چکا آباد ویرانہ
ہمارے اور تمہارے عشق کا چرچا ہے شہروں میں
کوئی سنتا نہیں اب لیلےٰ و مجنوں کا افسانہ
گزر یا رب گلستاں میں ہُوا ہے کس شرابی کا
کہ شاخیں جھومتی ہیں،۔ نالۂ بلبل ہے مستانہ
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment