Saturday, 26 March 2016

ہوس سود میں سودائے زیاں کرتا ہوں

ہوسِ سود میں سودائے زیاں کرتا ہوں
جو مجھے چاہیے کرنا وہ کہاں کرتا ہوں
دل پھُنکا جاتا ہے، پر آہ کہاں کرتا ہوں
کس قدر پاس تِرا سوزِ نہاں کرتا ہوں
حال دل کچھ تو نگاہوں سے عیاں کرتا ہوں
اور کچھ طرزِ خموشی سے بیاں کرتا ہوں
شغلِ الفت میں کوئی دم بھی نہیں ہے بے کار
اور جب کچھ نہیں کرتا ہوں، فغاں کرتا ہوں
ہمنشیں میرے بہت ہیں،۔ نہیں ہمراز کوئی
دل کی جو بات ہے کب وقفِ زباں کرتا ہوں
عقل حیران ہے خود اپنی کہ میں کیا کیا کچھ
دوستی میں تِری اے دشمنِ جاں! کرتا ہوں
جانتا کیا نہیں میں تیری وفا کو،۔ لیکن
صرف رنگینئ عنوانِ بیاں کرتا ہوں
شغل مے سے مجھے کیا کام مگر جب ناصح
'پوچھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ 'ہاں کرتا ہوں
لطف آ جاتا ہے اربابِ سخن کو وحشتؔ
جب کبھی تذکرۂ حسنِ بتاں کرتا ہوں

وحشت کلکتوی

No comments:

Post a Comment