Saturday, 19 March 2016

چھوڑا ہے جس نے لا کے ہمیں اس بہاؤ تک

چھوڑا ہے جس نے لا کے ہمیں اس بہاؤ تک
وہ بھی ہمارے ساتھ تھا پچھلے پڑاؤ تک
حیرت پہ اختیار تھا، لیکن کچھ ان دنوں
عادت میں آ گئے ہیں بدن کے یہ گھاؤ تک
گھر جا کے لوٹنے کی ہے مہلت ہمیں کہاں
بازار ہی میں ٹھہریں گے تم سے نِبھاؤ تک
راتیں بِتانے والے ہیں اب کس شمار میں
ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں ہمارے الاؤ تک
ہم نے کہا نہ تھا کہ ہیں رستے الگ الگ
اب مختصر سا ساتھ ہے اگلے پڑاؤ تک

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment