ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا
کہ قتل کرنا ہو جس کو کہا نہیں جاتا
یہ کم ہے کیا کہ مِرے پاس بیٹھا رہتا ہے
وہ جب تلک مِرے دل کو دُکھا نہیں جاتا
تمہیں تو شہر کے آداب تک نہیں آتے
بڑے عذاب میں ہوں مجھ کو جان بھی ہے عزیز
ستم کو دیکھ کے چپ بھی رہا نہیں جاتا
بھرم سرابِ تمنا کا کیا کھُلا مجھ پر
اب ایک گام بھی مجھ سے چلا نہیں جاتا
عجیب لوگ ہیں دل میں خدا سے منکر ہیں
مگر زبان سے ذکرِ خدا نہیں جاتا
اڑا کے خاک بہت میں نے دیکھ لی اے زیبؔ
وہاں تلک تو کوئی راستہ نہیں جاتا
زیب غوری
No comments:
Post a Comment