Saturday 26 March 2016

ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا

ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا
کہ قتل کرنا ہو جس کو کہا نہیں جاتا
یہ کم ہے کیا کہ مِرے پاس بیٹھا رہتا ہے
وہ جب تلک مِرے دل کو دُکھا نہیں جاتا
تمہیں تو شہر کے آداب تک نہیں آتے
زیادہ کچھ یہاں پوچھا گُچھا نہیں جاتا
بڑے عذاب میں ہوں مجھ کو جان بھی ہے عزیز
ستم کو دیکھ کے چپ بھی رہا نہیں جاتا
بھرم سرابِ تمنا کا کیا کھُلا مجھ پر
اب ایک گام بھی مجھ سے چلا نہیں جاتا
عجیب لوگ ہیں دل میں خدا سے منکر ہیں
مگر زبان سے ذکرِ خدا نہیں جاتا
اڑا کے خاک بہت میں نے دیکھ لی اے زیبؔ
وہاں تلک تو کوئی راستہ نہیں جاتا

زیب غوری

No comments:

Post a Comment