Monday, 28 March 2016

شراب ناب ہے ہر رنگ کی اپنے پیالے میں

شرابِ ناب ہے ہر رنگ کی اپنے پیالے میں
وہ طرّہ کون سا گل میں ہے کیا ہے شاخِ لالے میں
فغاں میں، آہ میں، فریاد میں، شیوہ میں، نالے میں
سناؤں دردِ دل طاقت اگر ہو سننے والے میں
نہ کیوں ہولاکھ مستانہ ادائیں میرے نالے میں
گدائے مے کدہ ہوں ہر طرح کی ہے پیالے میں
بغل میں دل نہیں معشوق ہے اور وہ بھی ہے تم سا
بھرے ہیں قہر کے انداز اس نازوں کے پالے میں
خبر سن کر مِرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
قیامت کی خلش آفت کی کاوش قہر کی سوزش
مِرے دل میں تِری حسرت ہے یا کانٹا ہے چھالے میں
گھُلا جاتا ہے زاہد آرزو میں حوضِ کوثر کی
کوئی تصویر اس کی کھینچ دے میرے پیالے میں
تمہارا اٹھ کے آنا اور مریضِ غم کا مر جانا
مِری جاں فرق ہوتا ہے سنبھلنے میں سنبھالے میں
لباسِ سرخ سے ہوتا ہے کب خونیں کفن کوئی
نچوڑو تو لہو کی بوند تک نکلے نہ لالے میں
عجب کیا ہے شبِ غم عکس سے اپنے جھجک جائے
جو دیکھے منہ یہ اپنا آئینہ لے کر اجالے میں
یہ کیسا رنج ہے یا رب ٹپکتی ہے خوشی جس سے
کہ نغمے کی ہے کیفیت مِرے دشمن کے نالے میں
نگاہِ شوخ ہے حلقے میں چشمِ شرم آگیں کے
تماشا ہے کہ بجلی کوندتی ہے آج ہالے میں
ملے مجھ سے تو فرمایا تمہیں کو داغؔ کہتے ہیں
تمہیں ہو ماہِ کامل میں، تمہیں رہتے ہو لالے میں

داغ دہلوی

No comments:

Post a Comment