ریت پہ جب تصویر بنائی پانی کی
صحرا نے پھر خاک اُڑائی پانی کی
خون کی ندیاں بہہ جانے کے بعد کھُلا
دونوں کے ہے بیچ لڑائی پانی کی
کشتی کب غرقاب ہوئی معلوم نہیں
ہم تو خون جلا کر بھُوکے رہتے ہیں
کھاتے ہیں کچھ لوگ کمائی پانی کی
اس میں جتنے لوگ بھی اُترے ڈُوب گئے
کون بتائے اب گہرائی پانی کی
منہ میں اب تک اس کی لذت باقی ہے
جو نمکینی تھی صحرائی پانی کی
میری خاطر خاک میں جو تحلیل ہوئے
یاد آئے تو یاد نہ آئی پانی کی
آج وہ مجھ کو ٹُوٹ کے یاد آیا توقیرؔ
آنکھوں میں پھر رُت گدرائی پانی کی
توقیر عباس
No comments:
Post a Comment