بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون
بچا ہی کیا ہے مِری خاک کو نکالے کون
تُو دوست ہے تو زباں سے کوئی قرار نہ کر
نہ جانے تجھ کو کسی وقت آزما لے کون
لہو میں تیرتا پھرتا ہے میرا خستہ بدن
گہر لگے تھے خنک انگلیوں کے زخم مجھے
اب اس اتھاہ سمندر کو پھر کھنگالے کون
زیب غوری
No comments:
Post a Comment