Saturday, 26 March 2016

بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون

بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون
بچا ہی کیا ہے مِری خاک کو نکالے کون
تُو دوست ہے تو زباں سے کوئی قرار نہ کر
نہ جانے تجھ کو کسی وقت آزما لے کون
لہو میں تیرتا پھرتا ہے میرا خستہ بدن
میں ڈوب جاؤں تو زخموں کو دیکھے بھالے کون
گہر لگے تھے خنک انگلیوں کے زخم مجھے
اب اس اتھاہ سمندر کو پھر کھنگالے کون

زیب غوری

No comments:

Post a Comment